Previous Page  10 / 14 Next Page
Information
Show Menu
Previous Page 10 / 14 Next Page
Page Background

Page 10

The Islamic Bulletin

The Purpose Of Life In Urdu

بہت زیادہ مذہبی نہیں تھے بلکہ اتنے بھی مذہبی نہیں تھے

کہ میں سمجھتی ہوں کہ اگر میں ان کو کیتھولک مذہب

کی طرف لا سکتی تھی۔ جہاں تک ہمارا تعلق ہے ہم ایک

جیسے پس منظر سے تعلق نہیں رکھتے تھے۔ میں سمجھتی

تھی کہ میں کھلے خیالات کی مالک ہوں اور نئی تہذیب کو

اپنانے میں دلچسپی رکھتی تھی۔

ہر چیز اگلے چند سالوں تک صحیح چلتی نظر آرہی

تھی۔ ہم خوش تھے اور کبھی بھی ہمارے درمیان تہذیب یا

مذہب پریشانی کا باعث نہیں بنی۔ اللہ نے ہمیں ایک پیارے

سے بیٹے کی شکل میں نعمت دی اور پھر کچھ سالوں بعد

ایک پیاری سی بیٹی۔ اب تک، ہم سب مل کر رہ رہے تھے

اور یہاں تک کہ میں نے اپنے بچوں کو چرچ لے جانا

شروع کردیا تھا۔ میرے شوہر نے مجھے اتوارکے ہفتوار

اجتماع میں لے جانے سے نہیں روکا۔ بہرحال، ابھی مجھے

کچھ ہی دن ہوئے تھے بچوں کو چرچ لے جاتے ہوئے کہ

میرے شوہر نے مجھ سے کہا کہ وہ نہیں چاہتے کہ میرے

بچے چرچ جائیں۔ صاف الفاظوں میں، مجھے غصہ اور

افسوس ہو رہا تھا۔ میں نے اعتراض کیا “کیوں نہیں”۔ میں

نے بحث کرتے ہوئے کہا کہ “کوئی بھی مذہب بہتر ہے

کوئی مذہب نہ ہونے سے”۔ میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا

کہ میرے بچوں کے چرچ جانے پر اعتراض کیوں ہے۔ اُس

وقت تک، ہمارے درمیان مذہب پر کبھی بحث نہیں ہوئی

تھی۔ حقیقیت میں میں نے کبھی یہ گمان بھی نہیں کیا تھا

کہ کیتھولک مذہب کے علاوہ بھی کوئی مذہب ہوسکتا ہے۔

میں پیدائشی کیتھولک عیسائی تھی اور سمجھتی تھی کہ

کیتھولک عیسائیت ہی صحیح مذہب ہے۔ وضاحت کے لئے،

میں کبھی اعتراض نہ کرتی لیکن اُس دن سے مجھے لگا کہ

بہت سی پریشانیاں اب ظاہر ہوں رہیں ہیں۔ ہم ہمہ وقت ایک

دوسرے کے ساتھ ہر چیز اور ہر ایک کے بارے میں بحث

مباحثہ میں لگے رہتے۔ ایک چھوٹی سی بات بڑھ کر بڑا

مسئلہ بن گئی۔ مذہب ہمارے درمیان موضوع بحث ہوتا تھا۔

تہذیبوں کا فرق ہمارے بحث مباحثہ میں ظاہر ہو رہا تھا۔ ہم

اپنے سسرال والوں کے بارے میں اور کبھی بدقسمتی سے

اپنے بڑھتے ہوئے بچوں پر بحث کرتے۔ جس بارے میں

میری ماں نے مجھے خبردار کیا تھا وہ سب مجھے صحیح

ثابت ہوتا نظر آرہا تھا۔

ہماری شادی شدہ زندگی میں ہمارے درمیان جو امن

اور ہم آہنگی تھی تو وہ صرف میرے شوہر کے والد یعنی

میرے سسر کی سمجھداری، خلوص، فکراور محبت کی بناء

پر تھی، میرے والد میرے شوہر اور اپنے پوتے، پوتی سے

پیار کرتے تھے اور یقیناً مجھ سے اپنی بیٹی کی طرح پیار

کرتے تھے۔ وہ ایک بہت مذہبی اور دیندار مسلمان اور عقل

مند انسان تھے۔ اُس وقت، میں کیوں کہ اسلام کے بارے میں

ذرہ برابر بھی معلومات نہیں رکھتی تھی، میرے سسر نے

پہلی مرتبہ مجھے مذہب اسلام سے روشناس کرایا۔ وہ پابندی

سے نماز پڑہتے، رمضان کے مہینے میں روزے رکھتے

اور غریبوں کے لئے بہت فیاض اور سخی تھے۔ میں اللہ

سے ان کا تعلق محسوس کرسکتی تھی۔ حقیقت میں میرے

سسر ضرورت مند لوگوں پر اتنے مہربان تھے کہ ہر روز

جب وہ ظہر کی نماز پڑھ کر مسجد سے گھر آتے تو کسی

نہ کسی ضرورت مند کو دوپہر کے کھانے کی دعوت دے

کر آتے اور یہ وہ روزآنہ کرتے تھے ان کے رشتہ دار اور

عزیز اکارب کہتے ہیں کہ ان کا یہ طریقہ کار انہوں نے

سالہ زندگی میں مرتے دم تک جاری رکھا۔

59

اپنی

میرے سسر میرے اور میرے شوہر کے درمیان

بحث مباحثہ کو پسند نہیں کرتے تھے اور ہمیں کسی نتیجے

پر پہنچنے کے لئے مشورہ دیتے کہ اس سے پہلے کہ کہیں

ہمارے جھگڑوں کا اثر ہمارے بچوں پر پڑے۔ وہ ہمارے

درمیان حل نکالنے کے لیے شدت سے کوششیں کرتے۔

انہوں نے اپنے بیٹے کو خبرار کیا تھا کہ وہ مجھے میرے

کمرے میں عبادت کرنے کی اجازت دیں مگر یہ مذہب کے

حوالے سے کچھ عرصے سے زیادہ نہ ہو سکا۔ میں مایوس

تھی اور علیحدگی کے بارے میں سوچنے لگی۔ جب میں

نے اپنے شوہر سے علیحدگی کے بارے میں بات کی تو

وہ مان گئے اور کہا کہ شاید یہ ہمارے شادی شدہ زندگی

کے لئے بہتر ہے۔ آپ کو معلوم ہے کہ بڑی مشہور کہاوت

ہے کہ جب کوئی دور ہوتا ہے تو اس کے پیار کی شدت کا

اندازہ تب ہوتا ہے لیکن ہمارے معاملے میں ایسا نہیں ہوا

بلکہ ایک دوسرے کی دوری نے ہمارے دلوں کے درمیان

فاصلے بھی بڑھا دیے۔ علیحدگی کے بعد، ہم دونوں نے چاہا

کہ ہم مستقل طور پر علیحدہ ہو جائیں اور ہم دونوں طلاق

پر راضی ہو گئے۔ حالانکہ میں شدت سے چاہتی تھی کہ

میرے بچے میرے ساتھ رہیں لیکن ہم دونوں جانتے تھے

کہ بچوں کی پرورش والد کے پاس زیادہ بہتر ہو سکتی ہے

کیوں کہ مالی اعتبار سے وہ اچھی حیثیت کے مالک تھے

اور بچوں کی نشونما اور کئی ضروریات کو پورا کرسکتے

تھے جو کہ میں نہیں کرسکتی تھی۔ ہر رات میں اپنے بچوں

کی راہ تکتی تھی۔ پھر میں اپنی ماں کے پاس واپس آگئی

اور بعد میں ہر ہفتیوار چھٹی سے ایک دن پہلے میں اپنے

بچوں سے ملنے لگی تھی۔ میرے سابقہ شوہر میرے بچوں

کو جمعہ کی دوپہر چھوڑ جاتے اور اتوار کی صبح سویرے

لے جاتے تھے۔ حالانکہ یہ طریقہ کار مجھے پسند نہیں تھا

لیکن کچھ نہ ہونے سے ہونا بہتر ہے۔

میں ہر روز رات کو سونے سے پہلے انجیل