Previous Page  11 / 14 Next Page
Information
Show Menu
Previous Page 11 / 14 Next Page
Page Background

Page 11

The Islamic Bulletin

The Purpose Of Life In Urdu

(انجیل) کا ایک حصہ پڑھتی تھی۔ جب بھی میرے بچے

میرے پاس آتے میں ان کو انجیل کا ایک حصہ پڑھ کر

سناتی بے شک ان کی سمجھ میں آتی ہو یا نہیں۔ انجیل کا

حصہ پڑھنے کے بعد، پہلی رات کو یسوع مسیح سے ،

دوسری رات کو فرشتوں سے، اگلی رات مختلف بزرگوں

سے اور اس سے اگلی رات کنواری مریم سے مدد مانگتی

تھی۔ لیکن ایک رات کوئی بھی نہ تھا کہ جس سے مدد

مانگی جاتی، مجھے بزرگوں کے پاس جانا تھا۔ تو میں نے

اپنے بچوں سے کہا کہ “آج ہم خدا سے کچھ پوچھنے جا

رہے ہیں”۔ میرے بیٹے نے کہا “ٹھیک ہے، تو خدا کون

ہے؟”۔ میں نے جواب دیا “وہ ایک ہے جس نے تمہیں پیدا

کیا، جس نے مجھے پیدا کیا اور وہ ہمیشہ ہمارے ساتھ رہتا

ہے”۔ تو وہ سوچنے لگا اور میری باتوں پر غور کرنے لگا۔

میری تفصیل، میرے غلطیوں کودوبارہ مٹاتی ہے۔ میں نے

کہا “اب خدا کا شکر ہے”۔ اس نے میری طرف دیکھا اور

پوچھا “مما، یہ کون ہے”۔ میں نے کہا “یہ خدا ہے۔ وہ خدا

کے بیٹے ہیں”۔ اس نے کہا “آپ نے ابھی ایک منٹ پہلے

کہا کہ خدا ہمیشہ سے ہے تو یہ کیسے مرسکتے ہیں؟ میں

نے کبھی بھی اپنی پوری زندگی مین ایسا نہیں سوچا۔ اس

نے مجھ سے پوچھا “یہ خدا کہاں سے آئے ہیں؟” اور میں

نے جواب دیا “یہ مریم کو کوکھ سے پیدا ہوئے ہیں کنواری

مریم کی کوکھ سے”۔ اس نے کہا “اچھا تو یہ کچھ وقت

پہلے پیدا ہوئے تھے”۔ میں نے کہا “جی ہاں”۔ لیکن اس کے

بعد اس نے کہا “آپ نے تو کہا تھا کہ وہ ہمیشہ سے تھے

وہ نہ تو کبھی مر سکتے ہیں اور نہ ہی پیدا ہوسکتے ہیں۔

میرا بیٹا جو کہ اس وقت تقریباً آٹھ سال کا تھا مجھ سے

براہ راست کہنے لگا، “مما، آپ کیوں صرف خدا سے ہی

مدد نہیں مانگتیں؟” میں حیران تھی اور ششدر رہ گئی اور

اچانک مجھے صدمہ ہوا کہ وہ میرے مذہب کے بارے میں

سوال کرے گا۔ میں نے اسے بتایا کہ میں خدا سے بھی

مانگتی ہوں۔ میں نہیں جانتی تھی کہ میرا اس بیٹے نے جو

ایک چھوٹا سا کانٹا چبھویا تھا وہ وقت سے ساتھ ساتھ بڑھتا

جائے گا جو مجھے ہمیشہ یاد دلاتا رہے گا کہ ایک خدا کی،

سچے خدا کی عبادت ضروری ہے۔

آخر کار کچھ سالوں بعد میں نے دوسری شادی کر

لی اور اپنے نئے شوہر کے ساتھ آسٹریلیا میں رہنے لگی۔

میرے سابقہ شوہر اپنے خاندان کے ساتھ سعودی عرب چلے

گئے۔ مجھے اپنے بچے دیکھے ہوئے بہت عرصہ گزر گیا

تھا۔ پھر میں اٹلی میں تھی جہاں میں نے اپنا نئے خاندان کی

شروع کی اور میں تین مزید بیٹیوں کی ماں ہوگئی، تب بھی

میں ہر رات باپ کے نام پر، بیٹے اور روح القدس کے نام

پر عبادت کرتی تھی۔ سال لمحوں اور مصروفیت میں ایسے

گزرے کہ پتا ہی نہیں چلا۔ ایک دفعہ میں گرمیوں کے

دنوں میں بہت خوش تھی کہ میرا بیٹا اور میری بیٹی میرے

پاس آنے والے تھے۔ بہت سی باتیں میرے دماغ میں چل

رہیں تھیں۔ آیا وہ مجھے اتنے لمبے عرصے بعد دیکھ کر

کتنا خوش ہوں گے؟ ہم کس بارے میں باتیں کریں گے؟ میں

مدد کے لیے دعائیں کرنے لگی۔ پہلی مرتبہ میرے تفکرات

ہوا ہوگئے جب میں نے انہیں ائیرپورٹ پر دیکھا۔ ماں اور

بچوں کے درمیاں قدرتی لگاؤ ہوتا ہے اور وہ تھا۔ اگر لگاؤ

کچھ وقت کے لئے ہوتا تو ختم ہو چکا ہوتا۔ میرا بیٹا میرے

دونوں بچوں میں سے زیادہ بولتا تھا۔ اس نے یقینی بنایا اور

مجھے یاد دلایا کہ وہ خنزیر کھانا میں نہیں کھائے گا اور

نہ ہی ایسی کوئی چیز کھائے گا جس میں الکوحل شامل ہو۔

میں نے اسے بتایا کہ میں بھی خنزیر نہیں کھاتی اور نہ ہی

الکوحل پیتی ہوں۔ میری یہ عادت تب تک تھی جب تک میں

نے اس کے والد سے شادی نہیں کی تھی۔ جہاں تک شراب

کا تعلق ہے، میں نے یقینی بنایا کہ کھانے میں شراب کا

استعمال نہ پو جب تک کہ وہ میرے گھر پر ہیں۔

وہ ایک خوبصورت گرمیوں کا موسم تھا ایک

دوسرے کو جاننے کے لئے ان کو بتایا ان کی نئی بہنوں

کے بارے میں، پکنک منائی، دور دراز علاقوں کی سیر

کی، تیراکی کی۔ میں نہیں چاہتی تھی کہ وقت گزرے لیکن

میں جانتی تھی کہ انہوں نے اپنی زندگی میں دوبارہ واپس

سعودی عرب جانا ہے اور وہ واپس جانے پر اصرار

کررہے تھے۔ میں نے اپنی بیٹی سے تکلیف دہ سوال پوچھا

کہ اس کی سوتیلی ماں کا رویہ اس کے ساتھ کیسا ہے تومیں

جواب سن واقعی بہت خوشش ہوئی کہ جب اس نے کہا کہ

وہ مجھے اپنی بیٹی کی طرح رکھتی ہیں۔

ان گرمیوں کے بعد میرے بچے ایک ساتھ دو دفعہ

سال کا ہوگیا، وہ

12

اور میرے پاس آئے ۔ جب میرا بیٹا

مہینے کے لیے رہنے آیا۔ ہم مذہب پر بحث

6

میرے پاس

کرتے کیا ہمیں مذہب پر بحث کرنی چاہیئے تھی! شخصیت

کے لحاظ سے میں اور میرا بیٹا ایک جیسے تھے لیکن

ہمارے اپنے اختلافات تھے۔ اور ظاہر ہے ان میں سے ایک

مذہب بھی تھا۔ جب کہ میں کسی بھی مسئلہ میں بہت زیادہ

گرم مزاج اور میرا بیٹا بہت زیادہ ٹھنڈا تھا، لہٰذا اس کی

کوشش ہوتی تھی کہ معاملات پرسکون رہیں جب کہ میں

غصہ میں حد سے گزرجاتی۔ ان جھگڑوں کے باوجود، میرا

یقین تھا کہ یہ ہمارے حق میں ہورہا ہے اور ہم اپنی بحث

میں برابری کا راستہ نکال سکتے ہیں۔ ہم بہت حد تک ایک

جیسے تھے ہم پیار کرنے والے، سخی اور لوگوں کی مدد

کرنے والے تھے۔ مجھے میرے بیٹے میں جو سب سے

اچھی چیز لگتی تھی وہ اس کی کام میں لگن تھی جو بھی وہ